فاؤنڈر ممبران

شوکت کیفی
شبانہ اعظمی
ایس ایس مہدی
کانتا پرساد
رانا نقوی
کے ایم سنگھ
روپ ریکھا ورما
پارس ناتھ لال
کامتا ناتھ
نظر عباس رضوی
کرونا شنکر
محمود الحسن رضوی
شارب ردولوی
ولایت جعفری
راکیش

شوکت کیفی

شوکت کیفی کی ولادت حیدر آباد کے ایک عظمت دار مسلم خاندان میں ہوئی۔آپ کا نکاح اردو ادب کے عظیم قدآور اور ترقی پسند شاعر کیفی اعظمی صاحب سے ہوا۔آپ نے فلمی دنیاکو دو عظیم ہستیاں عطا کیں، محترمہ شبانہ اعظمی اور بابا اعظمی۔
آپ نے ایک جیونی (کیفی اور میں) لکھی۔ جس پر ۲۰۰۶ میں ممبئی میں کیفی اعظمی صاحب کے چوتھے یوم وفات کے موقع ایک پلے بھی کیا گیا۔

شبانہ اعظمی

آپ کی ولادت ۱۸ /ستمبر ۱۹۵۰ء میں ہوئی۔آپ کے والدکیفی اعظمی مشہور زمانہ اور ترقی پسند شاعرتھے۔ آپنے اپنی فلمی کیریر کی شروعات ۱۹۷۴ء میں کی اور آپکی ادا کاری کا ستارہ آج بھی فلمی دنیا کے آسمانوں میں چمک رہا ہے۔
کیفی اعظمی صاحب کی وفات کے بعد ان کی یاد کو قائم و دائم رکھنے کے لئے آپ اور شیام بینیگل جی نے اپنی سانسد ندھی سے فنڈ دیا۔ جو کہ آج آل انڈیا کیفی اعظمی اکیڈمی کی شکل و صورت میں ہم سب کی نگاہوں کے سامنے ہے۔

شارب ردولوی

ردولی کے ایک تعلیم یافتہ اور زمیندار گھرانے میں آپکی پیدائش ہوئی۔آپ نے لکھنؤ یونیورسٹی سے شعبہء اردو میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔آپ نے اپنے کریر کی شروعات بحثیت اردو فیکلٹی میمبر دیال سنگھ کالج آف دہلی یونیورسٹی سے کی۔

شری کرشن موہن سنگھ

آنجہانی شری کے ایم سنگھ کی پیدائش ۱۵/جولائی ۱۹۵۲ ہوئی۔ ۲۰/جون ۰۱۱ ۲ کو آپ نے اس دنیائے فانی کو الوداع کہا۔اور آپ اتراکھنڈ میں الموڑا ضلع کے ہدولی گاؤں کے رہنے والے تھے۔
آپ کا تعلیمی دور لکھنؤ میں گزرا۔آپ نے اتر پردیش کے لکھنؤ یونیورسٹی سے بی ایس سی اور ایل ایل بی کا کورس مکمل کیا۔ آپ یوپی سیکریٹریٹ میں اے کلاس کے افسر(پرسنل سیکریٹری) رہے۔ آپ ایک اچھے قلم کار غزل سنگر ہونے کے ساتھ ساتھ ایجادات میں بھی مہارت رکھتے تھے۔

ایس ایس مہدی

سید سعید مہدی کی ولادت ایک مشترکہ خاندان میں ہوئی۔ آپ کے والد سید ممتاز حسین نیشنل انٹر کالج میں جغرافیہ کے ٹیچر رہے۔
آپ نے ابتدائی اوردرمیانی تعلیم بڑہل گنج سے حاصل کی اور مزید اعلیٰ تعلیم کے لئے ۱۹۷۶ میں لکھنؤ آ گئے۔جب آپ نے ندا فاضلی کو کہتے سنا کہ : کیفی صاحب کہا کرتے تھے کہ “میں غلام ہندوستان میں پیدا ہوا، آزاد ہندوستان میں جی رہا ہوں اور سوشلسٹ ہندوستان میں مرونگا” لیکن انکی یہ خواہش ادھوری ہی رہ گئی۔تو ندا فاضلی کے یہ الفاظ آپ کے دل میں گھر کر گئے اور آپکی روح تک کو جھنجھوڑ گئے۔آپ نے ایک ایسی تنظیم قائم کرنے کا ارادہ کیا جو کیفی صاحب کے خیالات کو عملی جامہ پہنانے میں سر گرم عمل رہے۔ اور آج آپکے تنظیم کی محنت رنگ لائی کہ آل انڈیا کیفی اعظمی اکیڈمی پورے جاہ و حشم کے ساتھ اپنے وجود پر دلالت کر رہی ہے